خواب ميں بھي نہ کسي شب وہ ستم گر آيا
وعدہ ايسا کوئي جانے کہ مقرر آيا

مجھ سے مے کش کو کہاں صبر، کہاں کي توبہ
لے ليا دوڑ کے جب سامنے ساغر آيا

غير کے روپ ميں بھيجاہے جلانے کو مرے
نامہ بر ان کا نيا بھيس بدل کر آيا

سخت جاني سے مري جان بچے گي کب تک
ايک جب کُند ہوا دوسرا خنجر آيا

داغ تھا درد تھا غم تھا کہ الم تھا کچھ تھا
لے ليا عشق ميں جو ہم کو ميسر آيا

عشق تاثير ہي کرتا ہے کہ اس کافر نے
جب مرا Ø+ال سنا سنتے Ú¾ÙŠ جي بھر آيا

اس قدر شاد ہوں گويا کہ ملي ہفت اقليم
آئينہ ہاتھ ميں آيا کہ سکندر آيا

وصل ميں ہائے وہ اترا کے مرا بول اٹھنا
اے فلک ديکھ تو يہ کون مرے گھر آيا

راہ ميں وعدہ کريں جاؤں ميں گھر پر تو کہيں
کون ہے، کس نے بلايا اسے، کيونکر آيا

داغ کے نام سے نفرت ھے، وہ جل جاتے ھيں
ذکر کم بخت کا آنے کو تو اکثر آيا

داغ دہلوی